تمھیں جو میرے غم. دل سے آگہی ہوجائے
جگر میں پھول کِھلیں ، آنکھ شبنمی ہوجائے
اجل بھی اُس کی بلندی کو چھو نہی سکتی
وہ زندگی جسے احساسِ زندگی ہوجائے
یہی ہے دل کی ہلاکت ، یہی ہے عشق کی موت
نگاہِ دوست پہ اظہارِ بیکسی ہوجائے
زمانہ دوست ہے کس کس کو یاد رکھوگے
خدا کرے کہ تمھیں مجھ سے دشمنی ہوجائے
سیاہ خانہء دل میں ہے ظلمتوں کا ہجوم
چراغِ شوق جلاو کہ روشنی ہوجائے
طلوعِ صبح پہ ہوتی ہے اور بھی نمناک
وہ آنکھ جس کی ستاروں سے دوستی ہوجائے
اجل کی گود میں قابل ہوئی ہے عمر تمام
عجب نہیں کہ مری موت زندگی ہوجائے
قابل اجمیری