وہ سوتے جاگتے آنکھوں میں بار بار آئے
اُسے نہ میری محبت کا اِعتبار آئے
وہ تپتی ریت، نگاہیں جُھلس گئی تھیں جہاں
کسی کے نقشِ قدم دُور تک پُکار آئے
یہ سارے کھیل تھے یوں بھی تری خُوشی کے لیے
جو بازی جیت ہی لی تھی، وہ آج ہار آئے
ابھی اُٹھی بھی نہ تھیں وہ جُھکی جُھکی پلکیں
بِچھڑ گیا ہے کوئی کیسے اِعتبار آئے
اُسی کو ڈُھونڈتے پِھرتے ہیں تیرہ راتوں میں
ہم اِس زمیں سے جِسے چاند پر اُتار آئے
مصحف اقبال توصیفی