ہر اک سے پیار باعثِ خو کر رہا ہوں میں
یہ کام تو خلاف ِ عُدو کر رہا ہوں میں
کتنی عزیز ہے مجھے تنہائی اور تو
زخموں کو اپنے خود ہی رفو کر رہا ہوں میں
آب و ہوا کا قحط ہے اور دھوپ تک نہیں
کم تو نہیں کہ پھر بھی نمو کر رہا ہوں میں
پڑھنی ہے اک نمازِ بدن میرے عشق کو
آبِ وصال سے جو وضو کر رہا ہوں میں
سجتا نہیں ہے رنگ ِ حنا تیرے ہاتھ پر
حالانکہ صَرف اپنا لہو کر رہا ہوں میں
کس نے دھمال ڈالی ہے مجھ میں سلیم فوز
ایسی صدا اٹھی ہے کہ ہُو کر رہا ہوں میں
سلیم فوز