ظرف ایسا ہے ستم سہہ کے بھی کم بولتے ہیں
موجِ خوں سر سے گزرتی ہے تو ہم بولتے ہیں
یاں کسی شخص کو تہذیبِ تکلم ہی نہیں
کیسی محفل ہے کہ سب لوگ بہم بولتے ہیں
عشق والے کبھی گمنام نہیں رہ سکتے
یہ وہ رستہ ہے جہاں نقشِ قدم بولتے ہیں
یہ الگ بات کہ اظہار نہیں کرتے لوگ
مسکراتی ہوئی آنکھوں میں بھی غم بولتے ہیں
اُن کو کیا بولنا ہوتا ہے کسی محفل میں
جن کی پیشانی پہ تقدیر کے غم بولتے ہیں
جنگ میں اور تو کوئی بھی مرے حق میں نہ تھا
دست و بازو تھے سو ہو کر بھی قلم بولتے ہیں
میری سچائی کاغماز ہے یہ سناٹا
جس طرح اونچی فصیلوں پہ علم بولتے ہیں
سید انصر